حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انجمن شرعی شیعیان جموں و کشمیر کے نمائندے اور حالات حاضرہ پر عمیق اور دقیق نظر رکھنے والے حجۃ الاسلام آغا سید مجتبیٰ عباس الموسوی الصفوی کی ایران آمد پر حوزہ نیوز ایجنسی نے ان کی فعالیت اور کارکردگی کے سلسلے میں خصوصی گفتگو کی جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
(۱)کشمیر میں شیعوں کی موجودہ حالات کے متعلق روشنی ڈالیں؟
مجموعی طور پر شیعیان کشمیر کی موجودہ حالت ماضی بعید سے کافی بہتر ہے، اقتصادی اور معاشی سطح پر اگرچہ اب بھی شیعیان کشمیر کے حالات اطمینان بخش نہیں، تاہم روز بروز شرح افلاس میں کمی واقعہ ہو رہی ہے، تعلیمی میدان میں بھی اب شیعیان کشمیر ترقی کی راہ پر گامزن ہیں البتہ اکثر ذہین طلاب اعلیٰ تعلیم جاری رکھنے کے لئے وسائل کے متحمل نہیں ہو پا رہے ہیں، انقلاب اسلامی ایران کی بدولت شیعیان کشمیر کی فکر، سوچ اور دینی بیداری میں مثبت تبدیلیاں واقعہ ہوتی جا رہی ہیں، نوجوان طبقے میں تحقیقی سوچ پروان چڑھ رہی ہے اور ہر معاملے میں اصلاح کا عنصر واضح نظر آرہا ہے تاہم کشمیر کے موجودہ پریشان کن سیاسی حالات کے منفی اثرات بھی ملت کشمیر کے تمام معاملات پر اثرانداز ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
(۲)کشمیری عوام اور ان کی انقلاب اسلامی کے تئیں کشمیری عوام کی سوچ پر روشنی ڈالیں؟
کشمیری عوام ابتدا سے ہی اسلامی انقلاب ایران کو عزت و احترام اور ایک امید کی نظر سے دیکھتے آرہے ہیں یہاں کے مسلمانوں کو اس بات کا اعتراف ہے کہ امریکہ اور دیگر اسلام دشمن مغربی قوتوں ے ٹکر لینے والا واحد اسلامی ملک اسلامی جمہوری ایران ہے اور اس راہ و روش کا بنیادی محرک انقلاب اسلامی ایران ہے مسلمانان کشمیر مظلومین عالم کی حمایت سے متعلق ایران کی خارجہ پالیسی کے مداح ہیں اور ایرانی خارجہ پالیسی کا یہ عنصر انقلاب اسلامی سے کشمیریوں کی محبت اور عقیدت کا اساسی پہلو ہے۔
(۳)وحدت کے متعلق (ہفتہ وحدت) آپ کی کیا رائے ہے اور وحدت بین المسلمین کے بارے میں آپ نے کیا اقدامات کئے ہیں؟
وحدت اسلامی ایک قرآنی تقاضا ہے ایک واجبی امر ہے اور امت مسلمہ کے تحفظ و بقا کے لئے ناگزیر ہے، میرے خیال میں دنیائے استکبار کے ظلم و استحصال سے نجات کا سب سے موثر ذریعہ اور ہتھیار وحدت اسلامی ہے، وحدت اسلامی کے بغیر امت مسلمہ کی شان رفتہ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، وحدت اسلامی کے لئے اسلامی جمہوری ایران کی خدمات دنیا بھر میں نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہیں جو عالمی سامراج کے لئے درد سر بنی ہوئی ہیں، وحدت اسلامی کو پارہ پارہ کرنے کے لئے عالم استکبار کی سازشیں آج عروج پر ہیں، ہمیں ان تمام آلہ کاروں پر گہری نظر رکھنا پڑے گی جو آج بھی مسلکی منافرت کو ہوا دینے کوششیں کرکے دشمن کا کام آسان کر رہے ہیں سرزمین کشمیر میں وحدت اسلامی کے لئے انجمن شرعی شیعیان جو کام کر رہی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، ہماری تنظیم اپنے تمام دینی سماجی اور فلاحی پروگراموں میں دیگر مسالک کے علماء اور معززین کو ساتھ لیکر چلتی ہے، مسلکی اختلافات کو ہوا دینے والوں کو تنظیم میں کوئی جگہ نہیں دی جاتی، اکثریتی فرقے کے ہر باجواز اقدام کو ہم عملی تعاون دے رہے ہے جہاں کئی بھی ذرہ بھر شیعہ سنی منافرت کا ماحول پیدا ہوتا ہے تنظیم دیگر مسالک کے علماء اور اکابرین کے ساتھ وہاں جاکر اس کا سد باب کرتی ہے، وحدت ملی کی آبیاری کے لئے مجالس اور کانفرنسوں کا انعقاد ہمارا مسلسل عمل ہے۔
(۴)انجمن شرعی شیعیان کی کارکردگی کے متعلق روشنی ڈالیں؟
انجمن شرعی شیعیان کوئی نو زائدہ تنظیم نہیں بلکہ آٹھویں صدی ہجری کے مشہور داعی اور کشمیر میں شیعہ مسلک کے بانی حضرت میر شمس الدین اراکی ؒ کے تبلیغی مشن کا موجودہ تنظیمی نام ہے، تنظیم کی سب سے بڑی کارکردگی کشمیر میں شیعہ مسلک کی دعوت اور تبلیغ و تشہیر ہے، گزشتہ ایک صدی میں تنظیم نے دینی سیاسی اور فلاحی میدان میں جو سنگ میل عبور کئے ان کی تفصیلی وضاحت کے لئے ایک کتاب کی ضرورت ہے، وادی بھر میں انجمن شرعی شیعیان نے دینی مکاتب کا ایک جال پھیلا دیا ہے، دو بڑے حوزات علمیہ تعمیر کئے جن میں ہر سال سینکڑوں طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو کر اپنے علاقوں میں تدریسی و تبلیغی خدمات انجام دے رہے ہیں، مروجہ تعلیم کے لئے بھی ایک بڑا ادارہ ہائر سیکنڈری اسکول برسوں سے مصروف خدمت ہے، تنظیم نے وادی کے اطراف و اکناف میں کئی عالی شان امام باڑے، مساجد خانقاہیں اور آستانہ جات تعمیر کئے، موقوفات کا دائرہ وسیع کیا سیاسی میدان میں تنظیم نے اکثریتی فرقہ کے شانہ بشانہ نمایاں کردار ادا کیا جس کے اعتراف میں صدر انجمن شرعی شیعیان کو عالمی سطح پر کشمیر سے متعلق منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں مدعو کیا گیا، کشمیر میں انقلاب اسلامی ایران اور نظام ولایت فقیہ کی تشہیر و ترویج کے لئے انجمن شرعی شیعیان سے زیادہ کسی اور تنظیم کا کردار نہیں، یہ بات میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔
(۵)آپ نے تو بہت نزدیک سے حالات کا جائزہ لیا ہوگا، کشمیری پنڈتوں کے متعلق جو باتیں سنی جا رہی ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
1989 میں کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہوئی، وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کا سلسہ شروع ہوا پہلے دو سال کے اندر اجتماعی ہلاکتوں کے کئی بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے، مشکوک کردار کی بنیاد پر جہاں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں کئی مسلمان مارے گئے وہاں 80 کے قریب کشمیری پنڈت بھی نشانہ بنے، کشمیری پنڈتوں میں خوف و ہراس کی ایک لہر دوڑ گئی، اسی دوران ایک سخت گیر گورنر کو کشمیر میں لایا گیا جس نے ایک حکمت عملی کے تحت کشمیری پنڈتوں کو وادی سے ہجرت کرنے کی ترغیب دی اور دیکھتے ہی دیکھتے پنڈت برادری کشمیر سے کوچ کرگئی، یہ کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی ایک منظم منصوبہ بندی تھی، گزشتہ 32 سال کے دوران ریاست میں سوا لاکھ کے قریب لوگ ابدی نیند سلائے گئے دس ہزار کے قریب نوجوان ابھی تک لاپتہ ہیں وہاں اسی کے قریب پنڈتوں کی ہلاکتوں کو نسل کشی کا نام دینا سراسر مضحکہ خیز ہے، ان پنڈتوں کو ہمیشہ سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا، ان کے اصل درد و کرب کو سمجھنے کے باوجود کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور نہ ان کی باز آباد کاری کے لئے کوئی سنجیدہ منصوبہ مرتب کیا گیا کشمیری قوم پنڈت برادری کو اپنے تہذیب و ثقافت کا ایک منفرد لازمی جز تصور کرتی ہے یہ لوگ اس سر زمین کے باشندے ہیں اور پوری کشمیری قوم ان کی باعزت واپسی کا انتظار کر رہی ہے۔
(۶)کشمیر میں مبلغین کے لئے آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، انہیں کن موضوعات پر زیادہ فوکس اور توجہ دینے کی ضرورت ہے؟
کشمیری مبلغین کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کشمیر کے غیر یقینی سیاسی حالات میں ان کے لئے حق و صداقت کی ترجمانی ایک دشوار مرحلہ بن چکا ہے، کیوں کہ دینی معاملات میں حکومتی مداخلت اب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے، اس صورتحال میں مبلغین کی ذمہ داریوں میں کافی اضافہ ہوچکا ہے، میں کسی دوسرے فرقہ اور مسلک کے مبلغین کی بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں البتہ شیعہ مبلغین کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں نظام ولایت فقیہ کے دائرے میں رہ کر اپنی فعالیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور موجودہ حالات میں جن موضوعات پر اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہئے ان میں قرآن سے آشنایی، اسوہ رسول ؐ اور سیرت اہلبیتؑ کی پیروی، پیغام عاشورہ اور عصر حاضر کے تقاضے، اتحاد بین المسلمین، اسلام اور مسلمین کے خلاف عالمی استکبار کی سازشوں سے آگہی اور اس کا سد باب، ولایت فقیہ کی اہمیت اور ضرورت، اصلاحی معاشرہ، سماجی بدعات اور رسومات کا خاتمہ وغیرہ شامل ہیں۔
(۷)عالم اسلام کے نام کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
عالم اسلام کے کو مجھ جیسا ایک ادنیٰ طالب عالم کیا پیغام دے سکتا ہے، البتہ یہ ضرورت محسوس کررہا ہوں کہ دنیا بھر میں اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو زہر اگلا جا رہا ہے اور اسلاموفوبیا کی جو سازش عالمی سطح پر چلائی جا رہی ہے دنیائے اسلام کو اس کے سد باب کے لئے متحرک ہونا چاہئے، صرف دین کی طرف رجوع اور شریعت اسلامی کی پابندی دنیائے اسلام کے تمام تر مصائب اور مسائل کے حل کا راستہ فراہم کر سکتا ہے، اتحاد و اخوت اسلامی کی آبیاری کے لئے ہر کسی کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئے شرق و غرب کی سامراجی قوتوں کی آلہ کاری کرنے والی حکومتوں سے کم از کم بیزاری کا مظاہرہ کرنا چاہئے، ملت واحدہ کے قرآنی تصور کو عملی شکل دینے کے لئے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے جو وقت اور حالات کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
(۸)حوزہ نیوز ایجنسی کے متعلق کس حد تک آشنائی ہے اور اس ایجنسی کی بہتر کارکردگی کے لیے اگر کوئی مشورہ دینا چاہیں تو ہمیں خوشی ہوگی۔
حوزہ نیوز ایجنسی کو ایک معتبر اور ذمہ دار ادارہ تصور کرتا ہوں جو اسلامی جمہوری ایران کے ساتھ ساتھ عالم اسلام بالخصوص علم تشیع میں حالات حاضرہ کی عکاسی کر رہی ہے، موجودہ مہذب دنیا میں میڈیا کی اہمیت کافی بڑھ چکی ہے، حوزہ نیوز ایجنسی سے متعلق میرا یہ ماننا ہے کہ مستقبل میں اس کا دائرہ کار اور بھی وسیع ہوگا اور اس کی اعتباریت میں بھی اضافہ ہوگا۔
حوزہ نیوز ایجنسی کو یہ تجویز دینا چاہتا ہوں کہ وہ دنیا بھر میں جہاں شیعہ اکثریتی علاقہ جات ہیں وہاں کی خبروں اور دینی سرگرمیوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کرے۔